24 News gk

Leading entertainment News website

مجھ میں اک ایسا نقص تھا کہ میری شادی نہیں ہو سکتی تھی

آج میرے لئے بہت بڑا اور دل دھڑ کا دینے والا خوبصورت دن تھا میں دلہن بنی بیج پہ بیٹھی تھی میر ارواں رواں کانپ رہا تھا مجھے اتنا اہم کام کرنا تھا لیکن میں اس بات تو سمجھ نہیں پارہی تھی کہ میں اتنے بھاری لہنگے اور زیورات کے ساتھ اتنا ضروری کام – کیسے کروں۔ میری ماں ابھی چند منٹ پہلے ہی مجھے اس بات کی یاد دہانی کروا کے گئی تھی۔ اور پھر میں بھی کا نیتے لرزتے ہوئے بیڈ سے نیچے اتری اپنا لہنگا سنبھالا اور دروازے کی کنڈی کھولی۔ اپنے کمرے سے نکل کر میں نے باورچی خانے کا رخ کیا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا لیکن اس وقت میری خوش قسمتی یہ تھی کہ سب لوگ کھانا کھانے کے لیے جمع ہوئے تھے تو باورچی خانے کی طرف کوئی بھی نہیں تھا کیونکہ کھانے کا انتظام لان میں کیا گیا تھا۔ میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی باورچی خانے تک

پہنچی میں نہیں جانتی تھی کی کونسی چیز کہاں پر پڑی ہے

ابھی میں اسی پریشانی میں کھڑی تھی کہ ایک آواز نے مجھے سر سے پاوں تک ہلا دیا اے نئی نویلی دلہن تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟ میری ساس کے اس سوال نے میرے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی میں نے اپنی مٹھی کو زور سے بند کیا اور آہستہ سے اپنا رخ اپنی ساس کی جانب موڑا اور خوفزدہ کی آواز میں انہیں کہا کہ مجھے دودھ کا ایک گلاس چاہیے۔ میری ساس بہت نرم طبیعت کی مالک تھی انہوں نے محبت و شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے کہا کہ بیٹا آپ چلو میں آپ کے کمرے میں دودھ کا گلاس بھجوا دیتی ہوں لیکن اگر وہ تھوڑی دیر تک دودھ کا گلاس بھیجوائی اور تب تک میرا شوہر آجاتا تو میں اپنا کام نہیں کر سکتی تھی میں نے ڈرتے ڈرتے انہیں کہا کہ آپ مجھے پکڑا دے میں لے جاتی ہوں تو میری ساس نے مجھے دودھ کا گلاس بنا کر پکڑایا اور میں جلدی سے اپنے کمرے میں آگئی۔ کمرے میں آکر میں نے گلاس ٹیبل پر رکھا اور اپنی مٹھی میں دبی ہوئی پڑیا کو گلاس میں انڈیل دیا اور جلدی سے اس گلاس کو ہلایا تا کہ وہ دوا مکمل طور پر دودھ میں حل ہو جائے۔ یہ کام کر کے میں نے گہری سانس کھینچی اور چلتی ہوئی بیڈ پر آبیٹھی اب مجھے اپنے شوہر کا انتظار تھا۔ میرا یہ انتظار زیادہ طویل نہیں تھا دس منٹ کے بعد میرے کمرے کا دروازہ ہلکا سادا ہوا اور میرا شوہر اندر داخل ہوا۔

اونچالمساقد گندمی رنگت اور شیر وانی میں وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا مجھے یقین ہو گیا کہ واقع ہی میرے ماں باپ نے میرے لیے کوئی شہزادہ ہی چنا ہے لیکن اپنے اندر کی خامیاں جب مجھے نظر آئی تو میر اول بیٹھ گیا میری ساری خوشی جھاگ کی مانند پڑ گئی۔ میرے شوہر کا ہم عبد اللہ تھا اس نے اگر اس نے آکر مجھے سلام کیا ایک دو اور باتوں کے بعد میں نے جھٹ سے دودھ کا گلاس اسے پکڑا دی۔ دودھ کا گلاس پیتے ہی مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے اس نے اپنے سر کو جھکا ہے دودھ پینے کے فورا بعد وہ گم سم سا ہو گیا اور دس منٹ کے بعد وہ خودگی میں جانے لگ اسم لگا مجھے اپنے کیے پر بہت شرمندگی تھی لیکن اس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ مجھے اپنی ماں کی بات بھی ضرور پانی تھی اپنے گھر کو بچانے کے لئے میری ماں مجھے روزانہ فون کر کے یہ بات یاد کرواتی کہ میں نے اپنے شوہر کو دوا پلانی ہے لیکن اس بات کا پتا میرے شوہر کو پتہ نہ چلے مجھے یہ سب کچھ کرنا اچھا نہیں لگتا تھا لیکن مجھے اپنی ماں کی بات بھی مانی تھی اور اسی وجہ سے وہ جیسے مجھے کہتی تھی میں ویسے ہی اپنے شوہر کو روزانہ دعا پلاتی رہی۔۔۔

دوا پینے کے بعد کبھی وہ بالکل خاموش ہو جاتا یا پھر سو جانکہ کئی دن تک یہ سلسلہ اس طرح سے چلتا رہا میں نے وہ دوائیاں بھی بہت چھپا کر رکھی تھی تا کہ کسی کی نظر میں نہ آئے۔ ایک دن جب میں نے اپنے شوہر کو دوائی دودھ میں ملا کر پلائیں تو وہ فورا واش روم چلا گیا مجھے بہت حیرت ہوئی لیکن میرے دل کو یہ تسلی تھی کہ دوا دو تین منٹ کے بعد ہی اثر کرتی ہے اور جب وہ واپس آیا تو اسی طرح سے گم سم سا ہو کر لیٹ گیا آج کچھ دنوں کے بعد میری ماں مجھ سے ملنے آئی تھی میں اپنی ماں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی لیکن انہوں نے آتے ہی مجھ سے سوال جواب شروع کیسے کہ تم روزانہ دوا دے رہی ہو یا نہیں میں نے ان کی تسلی و تشفی کروائی کہ میں نے ان کی شمسی و نقشی کروائی کہ میں روزانہ وقت پر ہی انہیں دوا دیتی ہوں انہوں نے میرا سر تھکا اور مجھے کہا کہ بس میری بیٹی تم نے کسی کو نہیں بتاتا خاص کر اپنی ساس کو اگر کسی کو بھی اس بات کی بھنک لگ گئی تو یہ لوگ تمہیں بہت ذلیل کریں گے اور تمہارا شوہر تمہیں طلاق دے دے گا یہ سوچ کر ہی میری روح کانپ گئی۔ اس گھر میں میرا شوہر اور میری ساس بس ہم تین افراد ہی رہتے تھے میری ساس حد درجہ نرم طبیعت افراد کی مالک تھی اور میر اشوہر بھی بہت خیال رکھنے والا تھا ی کبھی میں دل کرتا تھا کہ میں اسے بتادوں لیکن پھر اپنی ماں کی باتوں کی وجہ سے میں خاموشی ہی رہتی۔ بھی

میں نے اپنے شوہر کو کہا کہ آج مجھے اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے جاتا ہے تو اس نے کہا کہ میں تیار ہو جاؤ وہ آفس جاتے ہوئے مجھے وہاں چھوڑ جائے گا اور واپسی پر مجھے لیتے ہوئے آئے گا میں نے بھی ہاں میں سر ہلایا اور تیاری کرنے چلی گئی اپنے گھر آکر الگ سا ہی ایک سکون ملا اپنے ماں باپ سے مل کر میرے دل کو ٹھنڈک پہنچی۔ لیکن میرے ابو نے روکھا سا رویہ رکھا مجھے لگا طبیعت نہیں ٹھیک ہو گی۔ میری ماں نے مجھ سے پوچھا کہ تم گھر کب جلاؤ گی تو میں نے اپنی ماں کو بتایا کہ شام کے وقت میرا شوہر مجھے لینے کے لئے آئے گا۔ تو انہوں نے بھی کہا کہ ہاں تم شام تک چلی جاتا کیونکہ دوا کھانا ضروری ہے اور پھر میں اپنے گھر آگئی۔ ایک دن میر اشوہر اور میری ساس دونوں بہت ہی غصے میں میرے کمرے میں داخل ہوئے ان دونوں کے چہرے دیکھتے ہی میں تو خوف سے زرد پڑ گئی مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ اس طرح غصے میں کیوں ہیں اب تو مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی ہی ان کو میری سچائی معلوم پڑگئی ہے۔ میری ساس نے آتے ہی مجھے بازو سے کھینچا اور کہا کہ اس سے پہلے کہ میں تمہارے ساتھ کچھ کر دوں تم میرے گھر سے نکل جاؤ۔ میر اشوہر اپنے منہ سے کچھ بھی نہیں بولا تھا اور میں ایک جگہ سن ہو کر رہ گئی۔

میں کیا کروں گی میں کہاں جاؤں گی اور اگر میری ماں کو اس بات کا پتا چل گیا تو وہ میرے ساتھ کیا کریں گی یہ ساری باتیں میرے دماغ میں گڑھ ہونے لگی اور میری ساس نے مجھے بازو سے پکڑ کر کمرے سے باہر نکال دیا اور کہا کہ فورا سے پہلے نکلو میرے گھر سے ۔ میں ست روی سے شکستہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے گھر کی دہلیز پار کر گئی مجھے کچھ پتہ نہ تھا کہ میں کہاں جارہی ہوں۔ بس معلوم تھا تو اتنا ہی کہ میر اماز فاش ہو گیا ہے اپنے خیالات میں میں اس قدر کم تھی کہ سامنے سے آنے والی گاڑی کو میں نے نہیں دیکھا اور اس کے ساتھ ٹکرا کر زمین بوس ہو گئی۔۔۔ جب مجھے ہوش آیا تو اپنے آپ کو ہسپتال میں پایا میرا دماغ بہت بھاری ہو رہا تھا مجھے کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا کہ میں کون ہوں بس اتنا ہی یاد تھا کہ میں کسی گاڑی سے تکرار ہی ہوں اور مجھے بہت شدید چوٹ لگی تھی سر پر۔ جبھی میں نے نے اپنے بیڈ کے پاس ایک اجنبی کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس اجنبی کو دیکھ کر میں نے انجان نظروں سے اس سے سوال کیا کہ آپ کون ہے۔ تو اجنبی نے مجھے کہا کہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں آپ پریشان نہ ہوں آپ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا ایک مہینہ پہلے اور میں آپ کو ہسپتال لے کر آیا تھا ایک مہینہ تک آپ کوما میں رہی ہیں۔

اور ابھی آپ کو ہوش آیا ہے تو اس لیے اپنے دماغ کے اوپر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں اور پر سکون رہیں۔ میں اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ میں کون ہوں میر انگھر کہاں ہے میرے والدین لیکن میں اس سے کچھ بھی نہیں پائی۔ ایک دو دن تک میں مکمل صحت یاب ہو گئی تو اس اجنبی نے مجھے کہا کہ آپ کی یاداشت کھو گئی ہے اور میں آپ کے گھر والوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا آپ اس طرح کریں آپ میرے گھر چلے میرے گھر میری ماں رہتی ہیں وہ آپ کی دیکھ بھال کریں گی۔ وہ اجنبی بہت بھلے مانس دکھ رہا تھا اور اس وقت میرے پاس بھی کوئی اور سہارا نہیں تھا اور نہ ہی مجھے کچھ یاد تھا اسی وجہ سے میں اس اجنبی کے ساتھ اس کے گھر آگئی۔ اس اجنبی اور اس کی ماں نے میرا بہت خیال رکھا بہت پر سکون ماحول دیا اور چند دنوں میں ہی میں ایک دم سے تندرست و توانا ہو گئی لیکن ابھی بھی ایک بات مجھے اندر سے نکلتی تھی کہ مجھے اپنا ماضی یاد کیوں نہیں ہے اور جب بھی میں پرانی باتوں کو سوچنے کی کوشش کرتی تو میرے شرمندہ جاب شدید درد کی لہریں اٹھتی اور جب درد شدت اختیار کر جاتا تو میں سوچنا بند کر کے بستر پر لیٹ جاتی۔ یوں ہی کچھ دن چلتے رہے اور ایک دن اس اجنبی کے گھر ایک عورت آئی جس نے مجھے یہ کہا کہ وہ میری ماں ہے۔ یہ سن کر میں بہت حیران و پریشان ہو گئیں کہ آخر میری ماں نے مجھے کس طرح سے ڈھونڈا ہو گا۔

اور میں ان کے ساتھ گھر آگئی ابھی بھی میری یاداشت واپس نہیں آئی تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ صورت مجھے جھوٹ نہیں کہہ سکتی وہ سچ میں میری ماں ہے جس طرح سے وہ میرے سے محبت سے پیش آرہی تھی۔ گھر واپس آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ میرے والد بہت پریشان تھے ہر وقت اپنے کمرے میں ہی رہتے تھے انہوں نے ایک بار بھی مجھ سے کوئی بات نہ کی تھی ان کے چہرے کو دیکھ کر لگتا کہ وہ مجھ سے غصہ ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ میری والدہ میرے سے اتنی محبت سے بات کرتی ہیں اور میرے والد میرے سے اس قدر نالاں کیوں ہے۔ ایک دن میں ان کے کمرے میں گئیں تو وہ لیٹے ہوئے تھے تھے مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ بابا مجھے کچھ بھی یاد نہیں کہ میرا ماضی کیا تھا میں کون ہوں لیکن ایک بات مجھے بے انتہا کھنکتی ہے کیا آپ مجھ سے اس قدر شدید حصہ کیوں ہیں تو میرے بابا نے مجھے کہا کہ میں نے اور تمہاری ماں نے پیار میں کون سی کمی رکھی تھی جو تم نے ہم سب کو اتنا بڑا دھوکا دیا۔ یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی شاید میں نے کچھ بہت غلط کیا ہے جس کی وجہ سے میرے والد میرے سے بہت

تراض ہیں۔

وہ رونے لگے ان کی حالت پر میں آپ ہی گئی میں نے ان کو چپ کروانے کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے مجھے کہا کہ میں اس کمرے سے چلی جاؤ اور میں دل پر پتھر رکھ کر وہاں سے چلی آئی۔ مجھے بہت شرمندگی ہو رہی تھی کہ میرے ابو کو میری وجہ سے اتنی سخت تکلیف ہوئی ہے میں چاہتی تھی آپ جلد از جلد میری یاد داشت واپس آجائے اور مجھے پتہ چلے میں نے آخر ایسا کیا کیا ہے۔ اور پھر ایک دن وہ ہوا جس کے بارے میں میں نے بھی سوچا بھی نہ تھا۔ میں کمرے میں سوئی ہوئی تھی اور میری والدہ کے پاس دوسرے کمرے میں ان کی بچپن دوست آئی بیٹھی تھی۔ وہ دونوں بہت عرصے بعد لی تھی میری ماں نے پہلے ہی مجھے بتایا تھا کہ ان کی دوست آنے والی ہے۔ میں فریش ہو کر ان کے کمرے کی جانب گئی تو میری والدہ اپنی دوست کو اپنی ماضی کی باتیں ساری تھی مجھے بھی بہت تجسس ہوا تو میں بھی دروازے میں کھڑی ہو کر ان کی اور روانے میں باتیں سنے گی۔ مجھے پتا تھا یہ غلط ہے لیکن میں اپنے جس کے ہاتھوں مجبور تھی۔ میری والدہ کی آواز بہت غم میں ڈوبی ہوئی تھی میں حیران و پریشان رہ گئی کہ خوش نظر آنے والی میری والدہ اس قدر پریشان کیوں ہیں میری والدہ نے اپنی دوست کو بتایا کہ اپنی شادی والے دن وہ ہے انتہا خوش تھی کہ وہ اپنے من پسند شخص سے بیاہ رچا رہی ہیں میں جب اس گھر میں آئی تو میری ساری خوشیاں ملیا میٹ ہو گئی

کیونکہ میری ساس نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کا بیٹا پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور وہ اپنی پہلی بیوی سے بے انتہا پیار کرتا ہے جو کہ کچھ دن پہلے ہی اللہ کو پیاری ہو گئی تھی اور مجھے اس گھر میں اس کی بیٹی کی پرورش کے لئے لایا گیا ہے۔ میرے سر پر سات آسمان آن گرے کیونکہ یہ سچائی اتنی خوفناک تھی کہ میں اس کو اتنی جلدی قبول نہیں کر پارہی تھی۔ میں نے غصہ دکھانا چاہا تو میرے شوہر نے مجھے کہا کہ اگر مجھے اس گھر میں رہتا ہے تو چپ چاپ میری بیٹی کی پرورش کرنی ہے نہیں تو میں گھر سے جا سکتی ہوں وہ مجھے طلاق دینے کے لئے بھی راضی ہے میرا دل کیا کہ میں اس لڑکی کی گردن دبا دوں آج اگر یہ نہ ہوتی تو میں خوشی خوشی اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہوتی۔ لیکن میں مجبور ہو گئی تھی اور میں نے اس لڑکی کی پرورش شروع کر دی۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ میں اس بات کا بدلہ اپنے شوہر سے ضرور لوں گی جس طرح اس نے مجھے تڑپایا ہے میں اس کی بیٹی کو بھی تڑپاؤ گی وہ جب چھوٹی سی تھی اس نے ہاتوں کو سمجھنا شروع کیا تو میں نے اسے کہا کہ اسے اس قدر بہاریوں نے آن گھیرا ہے کہ اس کی کبھی شادی نہیں ہو سکتی اور یہ بات میں نے اس کے ننھے سے داغ میں ڈال دیں۔

میں نے اپنی بیٹی کو کہا کہ یہ بہاری تمہیں پیدائشی ہے جب کہ وہ مجھ سے جب بھی پوچھتی کہ یہ کون سی پیاری ہے تو میں اسے کہتی کہ یہ اندرونی پیاریاں ہیں جس کے بارے میں تمہیں نہیں پتا لیکن اگر شادی کے بعد تمہاری شوہر کو پتہ چل گیا تو وہ تمہیں طلاق دے دے گا اور تمہاری ساس تمہیں بہت ذلیل کرے گی۔ جیسے ہی میری بیٹی 16 سالوں کی ہوئی تو میں نے اپنے شوہر کو کہا کہ تمہاری بیٹی کہرہی ہے کہ فلاں شخص سے میری شادی کروا دو نہیں تو میں بھاگ جاؤں گی یہ سن کر میرا شوہر سکتے میں آگیا اور اس نے اس شخص سے شادی کروا دیں جس سے میں چاہتی تھی۔ شادی کے بعد بھی میں اسے روز فون کر کے کہتی کہ تم نے اپنے شوہر کو یہ دوائیاں بھی لازمی کھلانی ہے تا کہ وہ پیار نہ ہو۔ وہ لڑکی میری ساری باتیں مانتی چلی گئی میں چاہتی تھی کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے ہاتھوں سے بھی پاگل کر دے اور پھر اپنے شوہر سے طلاق لے کر کر جب وہ دوبارہ اس گھر میں آئے تو میں اس پر بد چلن کا الزام لگا کر اپنے خاوند کو اسی طرح تر پاؤ جیسے اس نے مجھے دیکھی دے کر تڑپایا تھا لیکن میر اسارا پلان تو تب خراب ہو گیا جب اس کے شوہر کو میری اصلیت کا پتہ چل گیا اس کا شوہر ایک دن آفیس سے ہمارے گھر آیا شام کے وقت اپنے سر اور مجھ سے ملنے کے لیے لئے اور میں فون پر بات کر رہی تھی کہ تم نے دوائی لازمی کھلانی ہے

اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارے ساتھ ساس بہت برا کرے گی تمہارا شوہر بھی بہت برا کرے گا تب اس نے میری باتیں سن لی اور مجھے یہ بھی کہا کہ میں اس کی معصوم بیوی سے دور رہو نہیں تو وہ میرا بہت برا حشر کرے گا اور اس کے بعد اس نے وہ دوائی کھائی تو سہی لیکن واشروم میں جاکر الٹی کر دی اور دل میں تہیہ کر لیا کہ وہ اپنی بیوی کو ٹھیک کر کے ہی رہے گا اور پھر اس کو جب یہ پتہ چلا کہ میری بیوی کو اس قدر غلط دوائیاں کھلائی گئی ہیں جس سے وہ جلد ہی ایمنشیا کا شکار ہونے والی ہے تو اس نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو ڈاکٹر نے اسے کہا کہ اگر یہ اپنی یاداشت کھو دے اور آپ لوگ اس کے دماغ کو کچھ اس طرح کا جو کا دو کہ یہ سب بھول جائے تو ہم اس کے دماغ سے یہ ساری باتیں نکال سکتے ہیں۔۔۔ اور اس کے شوہر نے ایسا ہی کیا اپنی گاڑی سے اس کا ایکسیڈنٹ کروایا اور اجنبی بن کر اور اپنی ماں کے ساتھ مل کر اس کی حفاظت بھی کی اور اس کا خیال بھی رکھا۔ اور اب وہ اس کو میرے پاس چھوڑ کر گیا ہے اور مجھے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر میں نے اس کا خیال نہ رکھا تو وہ میرے کرتوتوں کے بارے میں پولیس کو بتا دے گا۔ اپنی بیوی کو یہاں پر چھوڑنے کا یہ مقصد اپنی بیوی کو ہے کہ وہ اپنے باپ کے قریب آجائے۔ شوہر کے دل میں جو غلط تھی ڈالی ہے اس کی بیٹی کے خلاف وہ ختم

وہ اپنی دوست کو اور بھی بہت ساری باتیں بتا رہی تھی لیکن اپنی ماں کی اتنی باتیں سن کر میرے قدموں تلے سے زمین سرک گئی اور اسی وقت مجھے سب کچھ یاد آنے لگا کہ میری ماں مجھ سے کس قدر محبت سے پیش آتی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ تھی وہ مجھے کتنا ڈر آیا کرتی تھی کہ مجھے اندرونی بہت ساری بیماریاں ہیں چاہے وہ سوال یہی سہی لیکن تھی تو میری ماں انہوں نے میرے ساتھ بہت برا کیا یہی سب سوچتے ہوئے میں بے ہوش ہو گئیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں اپنے کمرے میں تھی میرا شوہر اور میری ساس میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے میرے ابو جی بھی وہاں پہ تھے ان کو دیکھ کر میں زار و قطار رونے لگی ان سب نے مجھے دلاسہ دیا اور کہا کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب میں اپنے شوہر کے ساتھ ایک اچھی زندگی کی شروعات کروں۔ تبھی وہاں پر میری ماں آئی اور انہوں نے مجھ سے بہت معافی مانگی اور کہا کہ میں اس کو معاف کر دوں مجھے یہ بھی کہا کہ میں نے کسی کی بیٹی کے ساتھ برا کیا ہے شاید خداوند تعالٰی نے اس لیے مجھے بھی بے اولا رکھا اگر میں اپنی اولاد کی طرح تمہارے ساتھ اچھا کرتی تو شاید اللہ تعالی مجھے بھی اولا و سے نواز دیا۔۔۔ اور میں نے کھلے دل سے انہیں معاف کر دیا اور میں آج خوش و خرم اپنی زندگی اپنے شوہر اور ساس کے ساتھ گزار رہی ہوں۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.