24 News gk

Leading entertainment News website

دکھوں،غموں اور پریشانیوں کا علاج قرآن و سنت کی روشنی میں!

دکھوں،غموں اور پریشانیوں کا علاج قرآن و سنت کی روشنی میں!

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على هادي الأنام وخاتم الأنبياء والمرسلين نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، أما بعد: اس حقیقت سے کوئی انسان انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں ہر امیر غریب،نیک و بد کو قانون قدرت کے تحت دکھوں،غموں اور پریشانیوں سے کسی نہ کسی شکل میں ضرور واسطہ پڑتا ہے،اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دنیا دارالعمل اور امتحان گاہ ہے، انسان یہاں آزمائش کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اسے آزادی سے نیکی اور بدی کرنے کی قوت دی گئی ہے جسے بروئے کار لا کر وہ نیکی کی صورت میں اجر و ثواب اور نافرمانی کی صورت میں عذاب و سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ غربت و تنگدستی اور امارت و خوشحالی بھی، اس دنیا کے دارالعمل ہونے کا ایک حصہ ہے۔ یہاں دو قسم کے لوگ بستے ہیں، ایک وہ جو آسودہ حال اور دولت مند ہیں اور ہر قسم کی آسائش و آرام سے بہرہ ور ہیں۔ دوسرے وہ جو غریب و مفلوک الحال ہیں اور زندگی کی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ مصائب و آلام انہیں ڈستے رہتے ہیں اور وہ زندگی یوں گزارتے ہیں جیسے دکھوں کے منوں بوجھ تلے دبے ہوئے ہوں اور اس بوجھ میں تخفیف کے آثار بھی دکھائی نہ دیتے ہوں۔ انسان کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتا ہو، اسے دکھوں سے مفر نہیں، یہ الگ بات ہے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دکھوں سے واسطہ پڑتا ہے اور زندگی اسے پہاڑ نظر آنے لگتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مصائب و آلام سے چھٹکارا حاصل کر ے مگر وہ اس طرح گلے کا ہار بن جاتے ہیں کہ روایتی کمبل کی طرح چھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ گلے کا ہار بننے والے ان دکھوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا، کسی بھی پہلو سے وہ زندگی کے لئے عذاب بن سکتے ہیں۔ مسلسل ناکامیاں اور حوصلہ شکن محرومیاں انہیں جنم دیتی ہیں اور غم کے اندھیرے غاروں میں جاگراتی ہیں۔ اقتصادی بدحالی، معاشرتی ناہمواری، عدم مساوات، ظلم و ستم، ناانصافی اور ریاستی جبر بھی اس کے اسباب میں سے ہیں، جس سے انسان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور جسمانی قوت اس طرح متاثر ہوتی ہے کہ وہ صدیوں کا بیمار نظر آنے لگتا ہے۔ اس دکھ بھری دنیا کے سمندر میں تنکے کی طرح بہنے کے باوجود انسان ہاتھ پاؤں ضرور مارتا ہے اور یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ دکھوں سے نجات پالے اور غموں کے بھنور سے باہر آجائے۔ واضح رہے کہ مصیبتوں اور دکھوں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ۔ایک نفسیاتی اور روحانی ، دوسری جسمانی  اور بیرونی ذیل میں نفسیاتی اور روحانی پریشانیوں کا بالتفصیل ذکر کرنا چاہوں گا۔ نفسیاتی پریشانیاں:نفسیاتی پریشانیوں سے مراد وہ تمام نفسیاتی امراض اور جلد اثر کر جانے والے جذبات ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنا توازن اور خود پہ کنٹرول کھو بیٹھتا ہے۔اگر چہ اس طرح کی پریشانیاں بہت زیادہ ہیں اور ان پر علیحدہ علیحدہ بالتفصیل بحث ہو سکتی ہے لیکن ہم ان میں سے صرف انہی کا ذکر کریں گے جن کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں۔ الهم:(پریشانی)(Anxiety) انسان کا معمولی و غیر معمولی چیزوں کے بارے مسلسل پریشان رہنا ’الہم‘ کہلاتا ہے ۔ بعض اوقات  یہ پریشانی مستقبل میں درپیش چیلنجز اور مسئولیت کے بارہ میں ہوتی ہے ۔یہ ایسا نفسیاتی مرض ہے جو شیطان انسان کے دل میں وسوسوں کی صورت میں ڈالتا ہے اور اسک کےروز مرہ کے معمولات کو ‘اگرچہ وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں، ایک پہاڑ کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔یہ پریشانیاں انسان کو کمزور کردیتی ہیں اور انسان حوادثات زمانہ میں پھنس کر رہ جاتاہے ،خصوصاََجب انسان اپنے خالق حقیقی سے کٹ جائے ، سنت نبوی سے اپنے مسائل کا حل تلاش نہ کرے اور اپنے ازلی دشمن کی پیروی کرے تو اللہ تعالیٰ انسان کو ان پریشانیوں کے ذریعے آزماتاہے تا کہ انسان معصیت کو چھوڑتے ہوئے رجوع الی اللہ کرے اور اپنے پیدا کرنے والے کی رضا و منشاکے مطابق چلے ۔ حزن: (غم) (Sadness) اسے ماہرین نفسیات کی اصطلاح میں’کآبہ‘کےنام سے پہچاناجاتا ہے۔ یہ لفظ اکثر ان غموں پر بولا جاتا ہے جو کسی معین حادثہ کی پیش آنے کی وجہ سے لگ جاتے ہیں یا کئی حادثات کا نتیجہ ہوتے ہیں جیسے اپنے کسی عزیز کی گمشدگی ،مالی خسارہ ،طویل مرض کا لگ جانا یا نامناسب سوسائٹی کے ساتھ رہنا پڑجائے۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہوتے ہیں جو انسان کے ہاں اس طرح کے غم کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ، یہ ایک طبعی وفطری معاملہ ہے چنانچہ جب اس کے اسباب پائے جائیں گے تو یہ صورت حال ضرور پیدا ہو گی ۔ تقریباً ہر انسان اس میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ایسے میں ان غموں سے چھٹکا را صرف قرآنی احکامات اورسنت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ممکن ہے ۔ اسوۂ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایسی ہی رہنمائی ہمیںاس وقت ملتی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لخت جگر کی وفات ہوئی۔ اس حادثے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے گہرا اثر لیتے ہوئے فرمایا تھا، اے ابراہیم !تیری جدائی نے اتنا غمگین کردیا ہے کہ آنکھیں بہہ رہی اور دل افسردہ ہے لیکن ہم زبان سے صرف وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو ۔ القلق :(اضطراب و بے چینی) (Depression) ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کا کسی مخفی اور غیر معروف چیز کے اپنے اوپر واقع ہونے کا خوف محسوس کرنا قلق ( اضطراب ) کہلاتاہے ۔ قلق ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو کسی کو بھی لاحق ہوتی ہے تو وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے ، نہ خود میں ٹھہراؤ اور نہ ہی اپنے ماحول میں امن پاتا ہے ،بلکہ ایسے شخص میں ہمہ وقت اضطراب اور طبیعت میں کشیدگی و کھینچاؤ کی کیفیت رہتی ہے ۔ یہ تکلیف عموماََکسی غیر مانوس چیز کو دیکھنے ، اچانک حملے یا اخلاقیات سے گرے ’’جواری ، شراب نوش،دھوکے باز ‘‘ رفقاء کے ملنے اور غیر محفوظ مستقبل کا خوف دامن گیر ہونے والے شیطانی وسوسوں سے جنم لیتی ہے۔ یہ چیزیں انسان میں اندرونی کوتاہیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے انسان اوران شیطانی وسوسوں کے درمیان ایک ذہنی کشمکش شروع ہو جاتی ہے جن پر شیطان کو موقع ہاتھ آتا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ،بھٹکاتا ،شکوک و شبہات اور ذہنی ،فکری و نفسیاتی ٹکراؤ پیدا کرتاہے۔ظاہر بات ہے ان قوتوں پر شیطان کو غلبہ دے دیا گیا ہے ۔ الخوف : ڈر) (Phobophobia) بعض ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ خوف ایک ایسی کیفیت کانام ہے جس میں انسان نفسیاتی بےچینی اور اعصابی تناؤ محسوس کرتا ہے۔عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔مسلسل خوف و ہراس کی کیفیت میں رہتے ہوئے انسان سرکش ہو جاتا ہے۔ حالات سے بےگانہ ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ خوف کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ایک ایجابی و مثبت اور دوسرا سلبی و منفی کا نوعیت کا خوف۔ مثبت یہ ہے کہ اللہ کے عذاب و سزا کا خوف ہو۔ یہ ہر انسان کے لئے ضروری اور مطلوب ہے ۔بلکہ یہی وہ خوف ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ عبادت صرف اللہ کی کر نی چاہیے۔ یہ انسان کی زندگی میں رویے کی اصلاح کرتا ہے۔ فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق میں توازن بھی اسی سے ممکن ہے۔ مومنین کو اللہ تعالیٰ نے اسی صفت ِ خوف سے متصف کیا ہے۔ اور منفی نوعیت کا خوف وہ ہوتا ہے جس میں غیر اللہ سے ڈرا جائے۔یا اطاعت الہٰی میں مانع ہو یا جس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انسان اللہ کی نافرمانی مول لےبیٹھتا ہے۔جیسے جادوں گروں اور دجالین کا خوف۔ فطری اور پیدائشی خوف کی ایک تیسری قسم بھی بنائی گئی ہے ،یعنی وہ خوف جو بذات خود مثبت یا منفی میں سے کسی نوعیت کا بھی حامل نہیں جیسے وہ انسان جو اندھیروں کا عادی نہیں ہوتا اسے تاریکیوں سے ڈر لگنا شروع ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تاہم خوف کی یہ نوعیت اگرچہ بذات خود تو معصیت کے ارتکاب اور ترک اطاعت میں کوئی دخل نہیں رکھتی لیکن اگر یہی صورت بندے کے لئے کسی فعل معصیت میں مانع ہو جائے یا کسی فعل اطاعت کا موجب بن جائے تو یہ بھی مثبت اور منفی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح خوف کی متعدد صورتیں ہیں جیسا کہ موت کا خوف ،لوگوں کا ڈر ،کسی بیماری کا خوف ،فقروغربت کا خوف اورغیر محفوظ مستقبل کا خوف ان کے علاوہ متعدد ایسے اسباب و موثرات ہیں جو انسان میں خوف کو جنم دیتے ہیں۔ الیأس:(مایوسی) (Desperation) مایوسی اس ذہنی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان اس وقت مبتلا ہوتا ہے جب وہ اپنی آرزوں کے ناموافق حالات پاتا ہے۔یہ امید کے بر عکس ہے ، ناامیدی ایک ایسا مرض ہے کہ جسے ہمیشہ منفی صورت میں اثر انداز ہونے والی پریشانی خیال کیا جاتاہے ۔اس سے پستیاں مقدر بنتی ہیں ۔مایوس انسان زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے چلا جاتاہے ۔ وہ غوروفکر کی صلاحیت کھوبیٹھتا ہے۔ اس سے انسانی آزادی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔مایوسی سے ترقی و ایجادات اور حصول مقاصد میں بہت بڑی رکاوٹ آکھڑی ہوتی ہے۔مایوس انسان کا شیطان متلاشی ہوتا ہے ۔ اس کے ملنے سے شیطان کی فرحت و سرور کی کوئی انتہاء نہیں رہتی۔ پھر وہ ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ جن پہلوؤں سے وہ غالب ہوتے ہیں انہیں خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے۔ تاکہ یہ اپنے سارے نظام زندگی میں ان کے تابع ہو جائیں۔دشمنان اسلام کو ایک سپر طاقت کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ ان کی عقل و فکر اور صنعتی ترقی کو بڑا چڑھا کردکھاتا ہے۔ یہاں تک کہ مایوسیوں کے مارئے ہوئے لوگ پکا راٹھتے ہیں’’ہم ان ترقی یافتہ قوموں کے ہم پلہ کیسے ہوسکتے ہیں ہماری حالت اور ان کی حالت کےکیسے برابر ہو سکتی ہے؟ یہ ایسی بڑی پریشانی اور خطرناک مرض ہے جسکی وجہ سے مسلمانوں کے بڑے بڑے لشکر بھی پاؤں تک روند دیے گئے‘‘ ۔ ان تمام آلام ومصائب سے نکلنے کے عموماً دو رستے اختیار کیے جاتے ہیں ان میں پہلا ذریعہ صرف اور صرف توجہ الی اللہ ہے اور یقین کامل رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر قوت پر غالب ہے ، ہر سرکش پر ہاوی ہے ، یہ اسی کی شا ن ہے کہ اس کی ملکیت و بادشاہت پر کوئی غالب نہیں آسکتا ، اس کائنا ت میں کچھ بھی ایسا نہیں کہ اس کے امر اور حکمت کے بغیر حرکت کرسکے ،جب اس درجہ کا ایمان و یقین انسان کو حاصل ہوتا ہے تو ان پریشانیوں کی تکالیف اور ان کے اثر و رسوخ سے خود کو آزاد کر سکتاہے ، عالم یکسوئی اور عالم شجاعت کی منازل کو طے کرسکتاہے ۔ چنانچہ وہ بے خوف ہوکر محنت کرتا ہے۔ مشقت اٹھاتا ہے۔حالات بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ وہ اپنی زندگی کو ایک ایسی ذات سے منسلک کر لیتاہے جو ہر چیز پر غالب اور سخت گیر ہے۔ اور دوسرا رستہ جو اختیار کیا جاتا ہےوہ سراسر شریعت کے خلاف بھی ہے اور بلکہ مزید پریشانی کا باعث بھی ہے آپ آئے دن اخباروں میں پڑہتے رہتے ہیں کہ فلاں شخص نے نوکری نہ ملنے کی وجہ سے خود کشی کرلی،فلاں دوشیزہ نے محبت کی ناکامی میں اپنی جان دے دی،فلاں آدمی بیماری سے تنگ آکر پنکھے سےلٹک گیاالغرض بے شمار قسم کے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں اور بہت سے مسلمان کلمہ پڑھنے والےبسا اوقات تھوڑی سی پریشانی کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے جہنم چلے جاتے ہیں یا پھرنشہ آور اشیاء کے استعمال اور حرام کاریوں کے ذریعہ اس غم اور اضطراب کو ختم کرنے یا کم کرنے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے ۔ میرے بھائیو اور قابل احترام بہنو!یہ دنیا مصیبتوں ،پریشانیوں اور غموں کا گھر ہے،بعض لوگ اولاد کی نافرمانی کی وجہ سے پریشان بعض خواتین اپنے خاوند کی بے راہ روی کے متعلق غمگین رہتی ہیں، کچھ لوگ مال، اسباب کے ختم ہوجانے پر غم میں ڈوبے رہتے ہیں، بعض لوگوں کو اولاد نہ ہونے کا غم ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ البلد – 4 ’’ یقیناً ہم نے انسان کو (بڑی) مشقت میں پیدا کیا ہے ‘‘۔ غم،دکھ  اور پریشانی کا آجانا کوئی نئی بات نہیں یہ تو اس کائنات کے افضل ترین انسانوں یعنی انبیائے کرام کو بھی آئیں۔ کائنات کے امام کو بھی ایک غم تھا جس کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کہا: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا الكهف – 6 ’’پس اگر یہ لوگ اس بات (یعنی قرآن) پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس غم میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے‘‘۔ کس قدر اپنی امت کا غم ہے،کہ میری پوری امت جنت میں چلی جائے ۔قرآن کی ایک آیت باربار تلاوت کرتے۔ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚوَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ المائدة – 118 ’’اگر تو ان کوسزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو ُ زبردست ہے حکمت والا ہے‘‘۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.